NounPersonal Pronoun

خَطَٰيَٰكُمْ

your sins

تمہاری خطاؤں کو

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
أَخْطَأَ
يُخْطِئُ
أَخْطِئْ
مُخْطِئ
مُخْطَأ
إِخْطَاء
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْخَطَأُ وَالْخَطَأَۃُ کے معنیٰ صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں۔اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ (۱) کوئی ایسا کام بالارادہ کرے جس پر مؤاخذہ ہوگا۔اس معنیٰ میں فعل خَطِیئَ یَخْطَأ خَطْأً وَخِطْأَۃً بولا جاتا ہے۔قرآن پاک میں ہے: ( اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا ) (۱۷۔۳۱) کچھ شک نہیں کہ ان کا مارڈالنا بڑا سخت جرم ہے۔ (وَاِنْ کْنَّا لَخٰطِئینَ) (۱۲۔۱۹) اور بلاشبہ ہم خطاکار تھے۔ (۲) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے براکام سرزد ہوجائے کہا جاتا ہے۔ اَخْطَأَ یُخْطِیُٗ اِخْطَائً فَھُوَ مُخْطِیئٌ : اس میں اس کا ارادہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرتﷺ نے فرمایا: (1) (۱۱۵) رُفِعَ عَنْ اُمَّتِیْ الْخَطَأُ وَالنِّسْیَانُ کہ میری امت سے خطا اور نسیان اٹھالئے گئے ہیں۔نیز فرمایا: (2) (۱۱۶) مَنِ اجْتَھَدَ فَاخْطَأَ فَلَہٗ اَجْرٌ: جس نے اجتہاد کیا لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا۔قرآن پاک میںہے: (مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـًٔا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ) (۴۔۹۲) اور جو غلطی سے مومن کو مارڈالے تو(ایک تو) ۔۔۔۔غلام کو آزاد کردے۔ (۳) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحسن فعل سرزد ہوجائے۔اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا فعل بھی قابل ستائش نہیں ہوگا۔اسی معنیٰ میں شاعر نے کہا ہے: (3) (۱۳۷) اَرَدْتُّ مَسَائَ تِیْ فَاَجْرَتْ مَسَرَّتِیْ وَقَدْ یَحْسُنُ الْاِنْسَانُ مِنْ حَیْثُ لَایَدْرِیْ: تو نے میری برائی کا ارادہ کیا لیکن مجھے خوشی حاصل ہوگئی کبھی انسان نادانستہ طور پر اچھا کام کرلیتا ہے۔حاصل کلام یہ کہ جس شخص سے اتفاقاً ارادہ کے خلاف فعل صادر ہوجائے تو اس کے متعلق ’’اخطأ‘‘کہا جاتا ہے اور اگر ارادہ کے مطابق وہ فعل صادر ہو تو اصاب کہتے ہیں۔ مگر کبھی اَخطَأ کا لفظ اس شخص کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جس نے کسی غیرمستحن فعل کا ارتکاب کیا ہو یا کسی نازیبا کام کا ارادہ کیا ہو۔ لہذا اَصَابَ الْخَطَأَ وَاَخْطَأَ الصَّوَابَ وَاَصَابَ الصَّوَابَ وَاَخْطَأَ الخَطَأَ: ہرطرح کہنا درست ہوگا اور یہ لفظ مشترک ہے جو بہت سے معافی کا محتمل ہوتا ہے اس لئے جو شخص حقائق کا متلاشی ہو اسے اس کے متعلق خوب غور سے کام لینا چاہیئے۔ اَلْخَطِیَئَۃُ:یہ قریب قریب سَیِّئَۃٌ کے ہم معنیٰ ہے۔قرآن پاک میں ہے: (وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ ) (۲۔۸۱) اور اس کے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیرلیں گے۔لیکن زیادہ تر خَطِیئَۃُ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بذاات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدور کا سبب بن جائے مثلاً کسی نے شکار کو نشانہ لگایا مگر نشانہ خطا ہوکر کسی انسان کو جالگا یا کسی مسکر چیز کا استعمال کیا اور نشہ کی حالت میں کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھا یہ سبب دو قسم پر ہے ایک سبب مخطور جیسے مسکر چیز پینا اس حالت میں جو فعل سرزد ہوگا وہ قابل گرفت ہوگا۔دوم سبب مباح جیسے شکار کو نشانہ بنایا اس حالت میں اگر کوئی خطا سرزد ہوگی اس پر گرفت نہیں ہوگی اس قسم کی غلطی کے متعلق فرمایا: (وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ) (۳۳۔۵) اورجو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصددلی سے کرو(اس پر مؤاخذہ ہے) اور آیت کریمہ: (وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ خَطِیۡٓىـَٔۃً اَوۡ اِثۡمًا ) (۴۔۲۲) اور جو کوئی قصور یا گناہ خود کرے۔میں خَطِیَتْہ‘ سے وہ فعل مراد ہے جو بلاقصد سرزد ہوا ہو اسی قسم کی خطأ کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا: (وَالَّذِیْ أَطْمَعُ أَن یَغْفِرَ لِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ ) (۲۶۔۸۲) اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا۔خَطِیَئَۃٌ کی جمع خَطِیٓئَات وخَطَایا ہے۔قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا ضَلٰلًا ﴿۲۴﴾ مِمَّا خَطِیۡٓــٰٔتِہِمۡ ) (۷۱۔۲۴،۲۵) اور ظالم لوگوں کے لئے اور زیادہ تباہی بڑھا(آخر) وہ اپنے گناہ کے سبب ہی۔ (اِنَّا نَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ ) (۲۶۔۵۱) ہمیں امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہ بخش دے گا۔ (وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ) (۲۹۔۱۲) ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اٹھانے والے نہیں اور آیت کریمہ: (نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ) (۲۔۵۸) ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے۔سے وہ مراد ہیں جو عمداً کئے ہوں۔ اَلْخَاطِیئُ: بالا ارادہ گناہ کرنے والے کو کہتے ہیں جیسے فرمایا: (لَّا یَاۡکُلُہٗۤ اِلَّا الۡخَاطِـُٔوۡنَ ) (۶۹۔۳۷) اور نہ پیپ کے سوا(اس کے لئے) کھانا ہے جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔مگر کبھی نفس گناہ پر بھی خَاطِئَۃٌ کا اطلاق ہوتا ہے۔جیسے فرمایا: (وَ الۡمُؤۡتَفِکٰتُ بِالۡخَاطِئَۃِ ۚ) (۶۹۔۹) اور وہ جو الٹی بستیوں میں رہتے تھے سب گناہ کے کام کرتے تھے۔یعنی وہ گناہ عظیم کا ارتکاب کرتے تھے جیسا کہ (بطور مبالغہ) شِعْرٌ شَاعِرٌ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے لیکن جو گناہ بلاقصد سرزد ہوجائے اس کے متعلق آنحضرتﷺ نے فرمایا:کہ وہ قابل گرفت نہیں ہے۔(4) مگر آیت کریمہ: (نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ) (۲۔۵۸) ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے۔میں وہی معنی مراد ہیں جسے ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔

Lemma/Derivative

10 Results
خَطِيئَة
Surah:2
Verse:58
تمہاری خطاؤں کو
your sins
Surah:2
Verse:81
اس کی خطا نے
his sins
Surah:4
Verse:112
خطا
a fault
Surah:7
Verse:161
تمہاری خطاؤں کو
your sins
Surah:20
Verse:73
ہماری خطائیں
our sins
Surah:26
Verse:51
ہماری خطائیں
our sins
Surah:26
Verse:82
میری خطا
my faults
Surah:29
Verse:12
تمہاری خطائیں
your sins"
Surah:29
Verse:12
ان کی اپنی خطاؤں میں (سے)
their sins
Surah:71
Verse:25
خطائیں تھیں ان کی
their sins