Noun

سَوَآءٌ

(it) is same

برابر ہے

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
سَوّٰى
يُسَوِّى
سَوِّ
مُسَوٍّ
مُسَوًّى
تَسْوِيَة
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْمُسَاوَاۃُ کے معنی وزن، کیل یا مساحت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسدرے کے برابر ہونے کے ہں۔ جیسے محاورہ ہے: (ھٰذَا الثَّوْبُ مُسَاوٍ لِّذَاکَ الثَّوْبِ یہ کپڑا اس کپڑے کے مساوی ہے۔ ھٰذَا الدِّرْھَمُ مُسَاوٍ لَّذَالِکَ الدِّرْھَمٍ: یہ درہم اس درہم کے مساوی ہے اور کبھی لحاظ کیفیت کے برابر ہونے پر بولا جاتا ہے جیسے: ھٰذَا السَّوَادُ مُسَاوٍ لِّذَالِکَ السَّوَادِ کہ یہ سیاہی اُس سیاہی کے برابر ہے مگر اصل میں یہاں مساوات بلحاظ ذات سواد کے مراد نہیں ہوتی بلکہ بلحاظ محل کے ہوتی ہے اور معنیٰ معادلت (برابر) کے لحاظ سے یہ لفظ یوں عدل و انصاف کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔ (1) (الطّویل) (۲۵۰) اَبَیْنَا فَلَا نُعْطِی السَّوَائَ عَدُوَّنَا ہم انکار کردیتے ہیں اور اپنے دشمن کو عدل و انصاف نہیں دیتے۔ اِسْتَویٰ: اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ایک یہ کہ ایک دو یا دو سے زیادہ فاعل کی طرف اس کی استناد ہو جیسے: اِسْتَویٰ زَیْدٌ وَعَمْرٌ وَفِیْ کَذَا کہ زید اور عمر و فلاں چیز میں برابر ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (لَا یَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰہِ) (۹:۱۹) یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ دوم: یہ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا: (ذُوۡ مِرَّۃٍ ؕ فَاسۡتَوٰی ) (۵۳:۶) (یعنی جبرائیل علیہ السلام) طاقتور نے۔ پھر وہ پورے نظر آئے۔ (فَاِذَا اسۡتَوَیۡتَ اَنۡتَ ) (۲۳:۲۸) جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں بیٹھ جاؤ۔ اور محاورہ ہے: اِسْتَویٰ اَمْرُ فُلَانٍ کہ فلاں کا معاملہ ٹھیک اور صحیح ہوگیا اور جب عَلٰی کے ذریعہ متعدی ہو تو اس کے معنیٰ کسی چیز پر (چڑھنے، قرار پکڑنے اور) مستولی ہونا کے ہوتے ہیں۔ جیسے محاورہ ہے: اِسْتَویٰ فُلَانٌ عَلٰی عُمَالَتِہٖ فلاں نے اپنے عہدہ سنبھال لیا۔ قرآن میں ہے: (لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ ) (۴۳:۱۳) تاکہ تم ان کی سواری کرو۔ (فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ ) (۴۸:۲۹) اور پھر وہ اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی۔ اور اسی سے آیت: (اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی) (۲۰:۵) (خدائے) رحمٰن، جس نے عرش پر قرار پکڑا ہے اور بعض نے اس کے معنیٰ یہ کئے ہیں کہ آسمان و زمین کی تما چیزوں اس کے سامنے مساوی ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ کے ان کو درست بنانے سے سب اس کے ارادہ کے مطابق ٹھیک اور درست ہوگئی ہیں۔ جیساکہ آیت: (ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ) (۲:۲۹) پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک (سات آسمان) بنادیا۔ میں ہے بعض نے ایت: (استویٰ علی العرش) کے معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ تمام چیزوں کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف برابر ہے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہہ سکیں کہ یہ بنسبت دوسری چیز کے اﷲ کے زیادہ قریب ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کو اجسام پر قیاس نہیں کرسکتے جو ایک جگہ موجود ہوتے ہیں اور دوسری جگہ نہیں ہوتے۔ اور جب یہ لفظ (اِسْتَویٰ) متعدی بِالٰی ہو تو اس کے معنیٰ کسی چیز تک بالذات یا بلتدبیر پہنچ جانے کے ہوتے ہیں اور آیت: (ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ ) (۴۱:۱۱) پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا۔ میں دوسرے معنیٰ مراد ہیں یعنی اَلْاِنْتِھَائُ اِلَیْھَا بِالتَّدْبِیْرِ: یعنی تدبیر کرنا۔ اَلتَّسْوِیَۃُ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے کے ہیں اور آیت: (الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ) (۸۲:۷) (وہی تو ہے) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا۔ میں سَوَّاکَ سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت: (وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪) (۹۱:۷) اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قویٰ کو برابر بنایا۔ میں لفظ ’’ھَا‘‘ سے ان اقوائے نفسانیہ کی طرف اشارہ ہے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے نفس کے لئے مُقَوِّم بنایا ہے چنانچہ فعل کو ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور یہ بحث دوسرے مقام پر مذکور ہوچکی ہے کہ فعل کی نسبت جس طرح فاعلِ حقیقی کی طرف ہوتی ہے اسی طرح آلہ اور ان تمام چیزوں کی طرف اس کی نسبت صحیح ہوتی ہے جن کا کہ وہ فعل محتاج ہوتا ہے۔ جیسے سَیْفٌ قَاطِعٌ (کہ یہاں فعل قطع کی نسبت تلوار کی طرف ہے جو آلہ قطع ہے) اور آیت کی یہ توجیہ جو ہم نے بیان کی ہے اس قول سے بہتر ہے جو مَاسَوَّاھَا سے اﷲ تعالیٰ مراد لیتے ہیں کیونکہ لفظ ماجنس کے لئے موضوع ہے اور سمع (یعنی کسی دلیل سمعی) سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لفظ اﷲ تعالیٰ کے حق میں استعمال ہوا ہو۔ لہٰذا اس سے ذات باری تعالیٰ مراد نہیں ہوسکتی۔ اور آیت: (سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی … الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ) (۸۷:۱،۲) (اے پیغمبر) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو جس نے (انسان کو) بنایا پھر اس کے اعضاء کو درست کیا۔ میں سوّیٰ فعل (بلااختلاف) اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے اسی طرح آیت کریمہ: (فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ ) (۱۵:۲۹) جب اس کو (صورت انسانیہ میں) درست کرلوں اور اس میں (اپنی بے بہا چیز یعنی) روح پھونک دوں۔ اور اسی طرح دوسری آیت: (رَفَعَ سَمۡکَہَا فَسَوّٰىہَا) (۷۹:۲۸) اس کی چھت کو اونچا کیا پھر اسے برابر کردیا۔ میں بھی فعل تَسْوِیَۃ کا فاعل اﷲ تعالیٰ ہی ہے اور آیت فَسَوَّاھَا میں آسمان کا تسویہ اس کی بناوٹ اور تزیین دونوں کے لحاظ سے ہے۔ جیساکہ آیت: (اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ ) (۳۷:۶) بے شک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا۔ میں مذکور ہے۔ اَلسَّوِیُّ: اسے کہتے ہیں جو مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے افراط تفریط سے محفوظ ہو۔ قرآن پاک میں ہے: (ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا…) (۱۹:۱۰) سالم تین رات اور دن … (مَنۡ اَصۡحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ ) (۲۰:۱۳۵) (دین کے) سیدھے راستے پر چلنے والے کون ہیں۔ اور رَجُلٌ سَوِیٌّ: اس مرد کو کہا جاتا ہے جس میں خلق و خلقت دونوں اعتبار سے اعتدال پایا جائے اور افراط و تفریط سے محفوظ ہو۔ اور آیت: (عَلٰۤی اَنۡ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ …) (۷۵:۴) ہم اس پر قادر ہیں کہ ان کی پورپور درست کردیں۔ میں تَسوِیَۃُ الْبَنَانَ سے مراد ہتھیلی کو اونٹ کے پاؤں کی طرح بنادینا مراد ہے کہ اس کی انگلیاں نہ ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ تَسْوِیَۃُ الْبَنَانِ سے تمام انگلیوں کو یکساں بناکر بے کار کردینا مراد ہے کیونکہ انگلیوں کے قدر وہیئت میں متفاوت ہونے کی حکمت ظاہر ہے کہ وہ اس صورت میں کسی چیز کے پکڑنے میں باہم تعاون کرتی ہیں اور اگر وہ سب برابر ہوتیں تو یہ تعاون ناممکن تھا اور آیت: (فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا) (۹۱:۱۴) تو خدا نے ان کے گناہ کے سبب ان پر عذاب نازل کیا، سب کو (ہلاک کرکے) برابر کردیا۔ میں سَوَّاھَا سے ان کے شہروں کو برباد کرکے زمین کے ساتھ برابر کردینا مراد ہے جیساکہ فرمایا: (وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا) (۲:۲۵۹) جوکہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہوئی تھیں۔ اور بعض نے فَسَوَّاھَا کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ان کے شہروں کو ان پر برابر کردیا جیساکہ آیت: (لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ) (۴:۴۲) کہ کاش ان کو زمین میں مدفون کرکے مٹی برابر کردی جاتی۔ میں مذکور ہے اور یہ کفار کے اس قول کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت: (وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا) (۷۸:۴۰) اور کافر کہے گا: اے کاش! میں مٹی ہوتا۔ میں مذکور ہے۔ مَکَانٌ سُویً وَسَوَائٌ کے معنیٰ وسط کے ہیں۔ او رسَوائٌ وَسِویً وَسُویً: اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سَوَائٌ وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی۔ لیکن اصل میں یہ مصدر ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (فِیۡ سَوَآءِ الۡجَحِیۡمِ… ) (۳۷:۵۵) (تو اس کو) وسطِ دوزخ میں۔ (سَوَآءَ السَّبِیۡلِ…) (۲:۱۰۸) (تو وہ) سیدھے راستے سے۔ (فَانۡۢبِذۡ اِلَیۡہِمۡ عَلٰی سَوَآءٍ) (۸:۵۸) تو (ان کا عہد) انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو۔ تو یہاں عَلٰی سَوآئٍ سے عادلانہ حکم مراد ہے۔ جیسے فرمایا: (اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ) (۳:۶۴) (اے اہل کتاب!) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ۔ اور آیات: (سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ ) (۲: ۶) انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے۔ (سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ) (۶۳:۶) تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگو ان کے حق میں برابر ہے۔ (سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا) (۱۴:۲۱) اب ہم گھبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے۔ میں سَوائٌ سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں عدم نفع میں برابر ہیں۔ نیز فرمایا: (سَوَآءَۨ الۡعَاکِفُ فِیۡہِ وَ الۡبَادِ) (۲۲:۲۵) خواہ وہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے۔ اور کبھی سِویً وَسَوآئٌ بمعنیٰ غیر (حرف استثناء) بھی آجاتے ہیں جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔ (2) (۲۵۱) فَلَمْ یَبْقَ مِنْھَا سَویٰ ھَامِدٍ جسم مردہ کے سوا ان میں کوئی شخص باقی نہ رہا۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے۔ (3) (الطّویل) (۲۵۲) وَمَا قَصَدَتْ مِنْ اَھْلِھَا لِسَوَائِکَا: اور اس اونٹنی نے اس شہر کے اہل میں سے تیرے سوا کسی کا قصد نہیں کیا۔ وَعِنْدِیْ رَجُلٌ سِوَاکَ: تیرے علاوہ میرے پاس دوسرا آدمی ہے۔ اَلسِّیُّ: کے معنی مساوی کے ہیں۔ جیسے عِدْل بمعنیٰ مُعَادِلٌ اور قِتْلٌ بمعنیٰ مُقَاتِلٌ کے آجاتا ہے چنانچہ محاورہ ہے: سِیَّانِ زَیْدٌ وَعَمْروٌ زید اور عمرو دونوں برابر ہیں۔ اور سِیٌّ کی جمع اَسْوَائٌ آتی ہے جیسے نِقْضٌ کی جمع اَنْقَاضٌ اور بہت سے ہم مرتبہ یا برابر کے لوگوں کے لئے قَوْمٌ اَسْوَائٌ وَمُسْتَوُولنَ کہا جاتا ہے۔ اَلْمَسَاوَاۃُ: عرف میں ثمنیٰ اشیاء کے متعلق بولا جاتا ہے۔ جیسے ھٰذا الثَّوبُ یُسَاوِیْ کَذَا کہ اس کپڑے کی اتنی قیمت ہے اصل میں یہ سَاوَاہُ فِیْ الْقَدْرِ یا مرتبہ میں برابر ہونے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (حتی اذا ساوی بین الصدفین) (۱۸:۹۶) جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان (کا حصہ) برابر کردیا۔

Lemma/Derivative

27 Results
سَواء