ResultVerbPersonal Pronoun

فَأْتُوا۟

then produce

پس لے آؤ

Verb Form 1
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
أَتَى
يَأْتِي
اِئْتِ
آتٍ
مَأْتِيّ
أَتْي/اِتْيَان
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْاِتْیَانُ۔ (مص ض) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں۔ اسی سے سیلاب کو اَتِیٌّ کہا جاتا ہے (1) اور اسی سے بطور تشبیہہ مسافر کو اَتَاوِیٌّ کہہ دیتے ہیں۔ الغرض اِتْیَان کے معنی ’’آنا‘‘ ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم و نسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیر و شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ( اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ اَوۡ اَتَتۡکُمُ السَّاعَۃُ ) (۶:۴۰) اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو اَتٰی اَمْرُاﷲ (۱۶:۱) خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ (فَاَتَی اللّٰہُ بُنۡیَانَہُمۡ مِّنَ الۡقَوَاعِدِ ) (۱۶:۲۶) میں اﷲ کے آنے سے اس کے حکم کا عملاً نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَائَ رَبُّکَ (۶:۴۰) میں ہے اور شاعر نے کہا ہے۔ (2) (۵) اٰتیت المروء ۃ مِنْ بَابِھَا۔ تو جوانمردی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا او رآیت کریمہ : (وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ہُمۡ کُسَالٰی ) (۹:۵۴) میں یَاْتُون بمعنی یَتَعَاطُوْنَ ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ : یَاتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ (۴:۱۵) میں الفاحشۃ (بدکاری) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ : (لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا) (۱۹:۲۷) فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں) او رآیت (مذکورہ) میں ایک قراء ت تَاْتِی الْفَاحِشَۃَ بھی ہے اور یہ اَتَیْتُہٗ وَاَتَوْتُہٗ (دادی اور یائی) دونوں طرح آتا ہے۔ (3) چنانچہ (دودھ کے) مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے، اسے اتوَّۃٌ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اَتُوَّۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہٰذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے۔ اَرض کثیرۃ الاِتَائِ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : (اِنَّہٗ کَانَ وَعۡدُہٗ مَاۡتِیًّا ) (۱۹:۶۱) بے شک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے) میں مَاْتِیَّا (فعل) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماْتِیًا بمعنی آتیًا ہے (یعنی مفعول بمعنی فاعل) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیتُ الْاَمْرَ وَاَتَانِی الْاَمْرُ دونوں طرح بولا جاتا ہے۔ (4) اَتَیْتُہٗ بکذا واتیتُہٗ کذا۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے: (وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ) (۲:۲۵) اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دئیے جائیں گے۔ (فَلَنَاۡتِیَنَّہُمۡ بِجُنُوۡدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمۡ بِہَا ) (۲۷:۳۷) ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی۔ (وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا ) (۴:۵۴) اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی۔ جن مواضع میں کتاب الہٰی کے متعلق آتَیْنَا (صیغہ معروف متکلم) استعمال ہوا ہے وہ اُوْتُوْا (صیغہ مجہول غائب) سے ابلغ ہے (کیونکہ) اُوْتُوْا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتَیْنَا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے، جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے او رآیت کریمہ (اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ) (۱۸:۹۶) تو تم لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ (ائْتُوْنِیْ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جِیئونِیْ کے ہیں۔ اَلْاِیْتَائُ (افعال) اس کے معنی اِعْطَائٌ یعنی دینا او ربخشنا کے ہیں۔ قرآن پاک میں بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ ) (۲:۲۷۷) اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں (وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ) (۲۱:۷۳) اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم بھیجا (وَ لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ ) (۲:۲۲۹) او ریہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو (وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ) (۲:۲۴۷) اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی۔

Lemma/Derivative

264 Results
أَتَى
Surah:2
Verse:23
پس لے آؤ
then produce
Surah:2
Verse:25
حالانکہ وہ دئیے جائیں گے
And they will be given
Surah:2
Verse:38
آجائے تمہارے پاس
comes to you
Surah:2
Verse:85
وہ آجائیں تمہارے پاس
they come to you
Surah:2
Verse:106
ہم لے آتے ہیں
We bring
Surah:2
Verse:109
لے آئے
brings
Surah:2
Verse:118
آتی ہمارے پاس
comes to us
Surah:2
Verse:145
لائیں آپ (ان کے پاس)
you come
Surah:2
Verse:148
لے آئے گا
will bring
Surah:2
Verse:189
تم آؤ
you come