Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
عَرَفَ |
يَعْرِفُ |
اِعْرِفْ |
عَارِف |
مَعْرُوْف |
مَعْرِفَة/عِرْفَان |
اَلْمَعْرِفَۃُ وَالْعِرْفَانُ کے معنی ہیں: کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا۔ یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ اَلْاِنْکَار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے یہی وجہ ہے فُلَانُ یَعْرِفُ اﷲَ تو کہا جاتا ہے مگر تعدیہ بیک مفعول کی صورت میں فُلَانٌ یَعْلَمُ اﷲَ استعمال نہیں ہوتا کیونکہ انسان ذات الٰہی کا علم حاصل نہیں کرسکتا البتہ کائنات اور آثار قدرت پر غوروفکر کرکے اس کی صفات کا اندازہ لگایا جاسکتا یہ اسی طرح اﷲ یَعْرِفُ کَذَا نہیں کہتے کیونکہ مَعْرِفَۃِ کا درجہ علم سے کم تر ہوتا یہ اور لفظ معرفت اس ادراک پر بولا جاتا یہ جو غوروفکر کے بعد حاصل ہوتا ہے جس سے ذات باری تعالیٰ بلند و برتر ہے۔ دراصل معرفت کا لفظ عرفْتُ کَذَا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: میں نے اس کی بوپالی اور یا اَصَبْتُ عَرْفَہٗ: (میں نے اس کے رخسار پر مارا) سے یہ لفظ پہچاننے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ) (۲:۸۹) پھر جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس سے کافر ہوگئے۔ (فَعَرَفَہُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ ) (۱۲:۵۸) تو یوسف علیہ السلام (1) نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے۔ (فَلَعَرَفۡتَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ) (۴۷:۳۰) اور تم ان کے چہروں سے ہی پہچان لیتے۔ (یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ) (۲:۱۴۶) اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں۔ مَعْرِفَۃ کے مقابلہ میں اِنْکَارٌ اور عِلْمٌ کے مقابلہ میں لفظ جَھَالَۃٌ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (یَعۡرِفُوۡنَ نِعۡمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنۡکِرُوۡنَہَا ) (۱۶:۸۳) یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر (واقف ہوکر) ان سے انکار کرتے ہیں۔ اور ایک گروہ (یعنی صوفیہ کرام) کی اصطلاح میں عَارِفٌ کا لفظ خاص کس اس شخص پر بولا جاتا ہے جسے عالم ملکوت اور ذات الٰہی اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کے متعلق خصوصی معرفت حاصل ہو۔ عَرَّفَہٗ کَذَا: فلاں نے اسے اس چیز کا تعارف کروا دیا۔ قرآن پاک میں ہے: (عَرَّفَ بَعۡضَہٗ وَ اَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ) (۶۶۔۳) تو پیغمبر علیہ السلام نے کچھ بات تو بتادی اور کچھ نہ بتائی۔ تَعَارَفُوْا: انہوں نے باہم ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ قرآن پاک میں ہے: (لِتَعَارَفُوْا) (۴:۱۳) تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ (یَتَعَارَفُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ ) (۱۰:۴۵) آپس میں ایک دوسرے کو پہچان بھی لیں گے۔ عَرَّفَہٗ کسی چیز کو خوشبودار کردیا، معطر بنادیا۔ چنانچہ جنت کے بارے میں (عَرَّفَہَا لَہُمۡ ) (۴۷:۶) فرمایا ہے جس کے معنی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت کو خوشبو سے بسا دیا ہے اور ان کے لیے آراستہ کررکھا ہے اور بعض نے اس کے معنی توصیف کرنا، شوق دلانا اور اس کی طرف رہنمائی کرنا بھی بیان کیے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ ) (۲:۱۹۸) جب تم میدان عرفات سے واپس ہونے لگو۔ میں ’’عرفات‘‘ سے میدان مراد ہے۔ بعض نے اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ اس میدان میں آدم علیہ السلام اور حوا کا باہم دنیا میں پہلی دفعہ) تعارف ہوا تھا اس لیے عرفات کہا جاتا ہے اور بعض کا قول ہے کہ اس میدان میں دعا اور عبادت کے ذریعہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہیں اس لیے اسے عرفات کہا جاتا ہے۔ اَلْمَعْرُوْفُ: ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور مُنّکَرٌ ہر اس بات کو کہا جائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے۔ قرآن پاک میں ہے: (یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ) (۳:۱۱۴) اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے۔ (وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ) (۳۳:۳۲) اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو۔ یہی وجہ ہے کہ جُوْدٌ (سخاوت) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی مَعْرُوْفٌ کہا جاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ) (۴:۶) اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے۔ (اِلَّا مَنۡ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوۡ مَعۡرُوۡفٍ ) (۴:۱۱۴) ہاں (اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات … کہے۔ (وَ لِلۡمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ) (۲:۲۴۱) اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیے۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ نیز فرمایا: (فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ ) تو یا تو ان کو اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو یا اچھی طرح سے علیحدہ کردو۔ (قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ ) (۲:۲۶۳)نرم بات اور درگزر کرنا صدقہ سے بہتر ہے۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لیے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے۔ اَلْعُرْفُ: وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ ) (۷:۱۹۹) اور نیک کام کرنے کا حکم دو۔ عُرْفُ الْفَرَسِ: گھوڑے کی ایال۔ عُرْفُ الدِّیْکِ: مرغ کی کلغی جَائَ الْقَطَا عُرْفًا: قطا جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے: (وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ) (۷۷:۱) ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں۔ اَلْعَرَّافُ: یہ کَاھِنٌ کے ہم معنی ہے مگر عَرَّافٌ اس شخص کو کہتے ہیں جو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی باتوں کی خبر دے اور کَاھِنٌ اسے کہتے ہیں جو گذشتہ واقعات کے متعلق اطلاع دے اَلَعَریْفُ اسے کہتے ہیں جو لوگوں کو جانتا پہچانتا اور ان کا تعارف کراتا ہو۔ شاعر نے کہا ہے۔(2) (الکامل) (۳۰۸) بَعَثُوْا اِلَیَّ عَرِیْفَھُمْ یَتَوَسَّمُ وہ میرے پاس اپنا عریف بھیجیں گے جو پہچان کر لے گا۔ اور عَرُفَ فُلَانٌ عَرَافَۃً کے معنی عریف بننے کے ہیں اس لیے عَرِیْفٌ مشہور سردار کو کہا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے۔(3) (البسیط) (۳۰۹) بَلْ کُلُّ قَوْمٍ وَاِنْ عَزُّاْا وَاِنْ کَثُرُوْا عَرِیْفُھُمْ بِاثَافِی الشَّرِّ مَرْجُوْمُ ہر قوم خواہ کتنی ہی باعزت اور تعداد میں زیادہ کیوں نہ ہو مگر ان کے سردار بھی شرور زمانہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ یَوْمُ عَرَفَۃَ: جس روز حجاج میدان عرفہ میں وقوف کرتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وعلی الاعراف رجال) (۷:۴۶) اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے۔ میں اَلْاَعْرَافُ: سے وہ دیوار مراد ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان حائل ہے۔ اَلْاِعْتِرَافُ (افتعال) کے معنی اقرار کے ہیں اصل میں اس کے معنی گناہ کا اعتراف کرنے کے ہیں۔ اس کی ضد جُحُوْدٌ یعنی انکار کرنا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (فاعترفوا بذنبھم) (۶۷:۱۱) پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے۔ (فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا) (۴۰:۱۱) ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار ہے۔
Surah:2Verse:89 |
انہوں نے پہچان لیا
they recognized
|
|
Surah:2Verse:146 |
وہ پہچانتے ہیں اسے
they recognize it
|
|
Surah:2Verse:146 |
وہ پہچانتے ہیں
they recognize
|
|
Surah:2Verse:273 |
تم پہچان لو گے ان کو
you recognize them
|
|
Surah:5Verse:83 |
جو انہوں نے پہچان لیا
they recognized
|
|
Surah:6Verse:20 |
وہ پہچانتے ہیں اس کو
they recognize him
|
|
Surah:6Verse:20 |
وہ پہچانتے ہیں
they recognize
|
|
Surah:7Verse:46 |
وہ پہچانتے ہوں گے
recognizing
|
|
Surah:7Verse:48 |
جن کو وہ پہچانتے ہوں گے
whom they recognize
|
|
Surah:12Verse:58 |
پس اس نے پہچان لیا انہیں
and he recognized them
|