غُضیف بن حارث کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہؓ سے کہا: اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے شروع میں غسل کرتے تھے یا آخر میں؟ انھوں نے کہا: کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے پہلے حصے میں غسل کر لیتے تھے اور کبھی آخری حصے میں۔ میں نے کہا: اَللّٰہُ أکْبَرُ، ساری تعریف اس اللہ کی ہے، جس نے اس معاملے میں وسعت رکھی ہے، پھر میں نے کہا: اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے پہلے حصے میں نمازِ وتر ادا کرتے تھے یا آخری حصے میں؟ انھوں نے کہا: کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے پہلے حصے میں نمازِ وتر ادا کرتے تھے اور کبھی آخری حصے میں۔ میں نے کہا: اَللّٰہُ أکْبَرُ، ساری تعریف اس اللہ کی ہے، جس نے اس معاملے میں بھی وسعت رکھی ہے،میں نے پھر کہا: اس بارے میں آپ کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی تلاوت بآواز بلند کرتے تھے یا بآواز پست؟ انھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بسا اوقات جہری طور پر تلاوت کرتے تھے اور بسا اوقات سری طور پر، میں نے کہا: اَللّٰہُ أکْبَرُ، ساری تعریف اس اللہ کی ہے، جس نے اس معاملے میں بھی وسعت رکھی ہے۔
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنابت لاحق ہو جاتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو جاتے تھے اور پانی کو چھوتے تک نہیں تھے، پھر جب بیدار ہوتے تو غسل کرتے تھے۔
۔ (دوسری سند) سیدہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے پہلے حصے میں اپنی بیوی سے مجامعت کرتے تھے، پھر پانی کو چھوئے بغیر سو جاتے تھے، جب رات کے آخری حصے میں بیدار ہوتے تو پھر حق زوجیت ادا کرتے اور پھر غسل کرتے۔
سیدہ ام سلمہؓ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنبی ہو جاتے تو سوجاتے، پھر بیدار ہوتے اور پھر سو جاتے۔